ہم الجھ رہے تھے لوگ سلجھ رہے تھے
الجھنیں تو جا بجا ہم بوسیدہ ڈگر پے چل رہے تھے
یوں دور پہ دور چل رہے تھے جام چھلک رہے تھے
یوں کشمکش میں مے کے پیالے الٹ رہے تھے
جانے کن راہوں کی جانب ہم پلٹ رہے تھے
الجھتے الجھتے ہم خود سے بچھڑ رہے تھے
تحقیق کر رہے تھے لوگ نئ کہاوتیں لکھ رہے تھے
جدید دور میں بھی ہم افسانوی کہانیاں پڑھ رہے تھے