اور اِک بار پکارو، کہ بھری دُنیا میں
عین ممکن ہے، کہیں سے کوئی انساں بولے
فصیلِ رنگ نے منظر چھُپا لیا تھا، مگر
ہوَا چلی تو گُلستاں کا راز فاش ہوُا
سر ہر راہگزر ایک فصیل اُبھری ہے،
اور سر پھوڑ کے مرنا مجھے منظوُر نہیں!
دیوانہ ہوُں مَیں بھی، کہ نِکلتے ہیں بہ ہر لفظ
افکار کے خورشید مرے چاکِ قلم سے
ہم بچھڑ کر بھی بچھڑنے نہیں پاتے تُجھ سے
تیری یادوں میں ترے قرب کی مہکاریں ہیں