جب دشمنوں کے چار سو لشکر نکل پڑے
ہم بھی کفن کو باندھ کے سر پر نکل پڑے
اب جیت ہو ہماری کہ چاہیں شکست ہو
کہہ کر زباں سے اللہُ اکبر نکل پڑے
جن دوستوں پہ ناز تھا ہم کو بہت میاں
ان کی ہی آستین میں خنجر نکل پڑے
باہر کے دشمنوں سے تو محفوظ تھے مگر
دشمن ہمارے گھر کے ہی اندر نکل پڑے
سحرا میں ڈھونڈتے ہیں دعاؤں کے واسطے
شاید کوئی فقیر قلندر نکل پڑے
اس قوم کا وجود نہیں کچھ جہان میں
غدار جس میں قوم کا رہبر نکل پڑے
وشمہ تمہاری یاد میں رو دے تو آج بھی
آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر نکل پڑے