ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
دیوار پر لِکھی ہُوئی تحریر جو بھی تھی
ہر فرد لا جواب تھا ، ہر نقش بے مثال
مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر بھی تھی !
جو سامنے ہے ، سب ہے یہ، اپنے کیسے کا پھل
تقدیر کی تو چھوڑئیے، تقدیر جو بھی تھی
آیا اور اِک نگاہ میں برباد کر گیا
ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی
قدریں جو اپنا مان تھیں ، نیلام ہو گئیں
ملبے کے مول بِک گئی تعمیر جو بھی تھی
طالب ہیں تیرے رحم کے ہم، عَدل کے نہیں
جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی
ہاتھوں پہ کوئی زخم نہ پیروں پہ کُچھ نشاں
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی
یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت کا ایک درس تھی تحریر جو بھی تھی
امجد ہماری بات وہ سُنتا تو ایک بار
آنکھوں سے اُس کو چُومتے، تعزیر جو بھی تھی