ہم تیرا ہجر منانے کے لئے نکلتے ہیں
شہر میں آگ لگانے کے لئے نکلتے ہیں
شہر کوچو میں کرو حشر بپا آج کہ ہم
اُس کے وعدے کو بھلانے کے لئے نکلتے ہیں
ہم سے جو روٹھ گیا ہے وہ بہت ہے معصوم
ہم تو اوروں کو منانے کے لئے نکلتے ہیں
شہر میں شور ہے ، وہ یوں کے گماں کے سفری
اپنے ہی آپ میں آنے کے لئے نکلتے ہیں
وہ جو تھے شہرِ تحیر تیرے پُر فن معمار
وہ پُر فن تجھے ڈھانے کے لئے نکلتے ہیں
رہگذر میں تیری قالین بچھانے والے
خون کا فرش بچھانے کے لئے نکلتے ہیں
ہمیں سیراب نئی نسل کو کرنا ہے سو ہم
خون میں اپنے نہانے کے لئے نکلتے ہیں
ہم کہیں کے بھی نہیں پر یہ ہے روداد اپنی
ہم کہیں سے بھی نہ جانے کے لئے نکلتے ہیں