ہم رسم الفت ادا کر چلے وفا کر چلے
خود کو ہم فنا کر چلے وفا کر چلے
اپنے نام کی شمع ہم آج تیری بزم میں
خون دل سے جلا کر چلے وفا کر چلے
تم نے تو ہمیں زمانے میں کیا رسوا لیکن
ہم تیرے راز چھپا کر چلے وفا کر چلے
ہم تیرے شہر نہ پھر کبھی لوٹ کر آئیں گے
ہم آج یہ فیصلہ کر چلے وفا کر چلے
ہم جو کہتے تھے تمہیں چاہتے ہیں جان سے زیادہ
سو یہ جان تم پہ فدا کر چلے وفا کر چلے
اے میرے یار خدا تمہیں رنج و غم نہ دکھائے کبھی
تیرے لیے یہ دعا کر چلے وفا کر چلے
اپنی آرزؤں کی لاش اپنے کاندھوں پہ اٹھا کر
تمہیں اپنی چاہت سے رہا کر چلے وفا کر چلے