ہم جو دوسروں کے لیے اپنی خوشیاں لُٹا دیں
کبھی اپنوں کے لیے
تو کبھی غیروں کے لیے
وہ اب پوچھتے ہیں کہ
ہمارے لیے کیا بھی تو کیا کیا
ہم تو ناداں تھے جو
دنیا خوش کرنے چلے تھے
ہم تو بھول ہی گے تھے کہ
ایک خوش تو دوسرا ناراض ہے
اب کی بار احساس ہوا کہ
کہ حساب کتاب ضروری ہے
ورنہ بعد میں لوگ بھول کر اگلے رستےچلتے ہیں
پھر سوچتا ہو کہ حساب کتاب ہی رکھنا تھا
تو یہ اپنے نہ ہوے
کیونکہ حساب کتاب تو غیروں سے رکھتے ہیں
اپنوں سے تو نہیں
لیکن سوچ یہ بھی آتی ہے کہ
کہ یہاں اپنا کوں ہے
سب تو پرائے بنے ہوئے ہے