ہم جو مسکان چہرے پہ سجا کے پھرتے ہیں
یعنی خود میں کئ درد چھپا کے پھرتے ہیں
انداز اپنا یہ بھی نرالا نکل
اپنا نہیں اسے اپنا بنا کے پھرتے ہیں
چاند سورج میں اور بدلتے موسم
سفر بے نام اٹھا کے پھرتے ہیں
ہم خود میں اجڑے سے بکھرے
شہر اک بسا کے پھرتے ہیں
مل کے فرصت میں سمجھنا کبھی
لب پہ کیا دعا سجا کے پھرتے ہیں
ہم شہریار تھے اس کے شہر میں
وہ جو اجنبی بتا کے پھرتے ہیں
وہ طالب بھی نہیں وفا کا میری
جانے کس سے نبھا کے پھرتے ہیں
کہیں ضبط لازم کہیں اناء واجب
ورنہ اشک کئ بہا کے پھرتے ہیں
نہ پوچھ مجھ سے میرے خساروں کا حساب
ہم تو خود کو لوٹا کے پھرتے ہیں
اک ہم ہی نہ سنبھل پاۓ فقط
لوگ تو عہد بھلا کے پھرتے ہیں
کتنے تہی دست ہیں وہ لوگ عنبر
محبت جو گنوا کے پھرتے ہیں