ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تُم کو آ سکے
تُم نے ہمیں بُھلا دیا، ہم نہ تمہیں بُھلا سکے
تُم ہی اگر نہ سُن سکے قصہ غم، سُنے گا کون؟
کس کی زباں کھلے گی پھر، ہم نہ اگر سُنا سکے
ہوش میں آ چکے تھے ہم، جوش میں آ چکے تھے ہم
بزم کا رنگ دیکھ کر سَر نہ مگر اُٹھا سکے
رونقِ بزم بن گئے، لَب پہ حکائتیں رہیں
دل میں شکائتیں رہیں، لَب نہ مگر ہلا سکے
شوقِ وصال ہے یہاں، لَب پہ سوال ہے یہاں
کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر ملا سکے
ایسا ہو کوئی نامہ بر بات پہ کان نہ دھر سکے
سُن کے یقین کر سکے، جا کے اُنہیں سُنا سکے
عجز سے اور بڑھ گئی برہمی مزاجِ دوست
اب وہ کرے علاجِ دوست جس کی سمجھ میں آ سکے
اہلِ زباں تو ہیں بہت، کوئی نہیں ہے اہلِ دل
کون تیری طرح حفیظ درد کے گیت گا سکے