ہر طرف پھوُٹتی پَو کو دیکھو
ڈوبتے چاند کا ماتم نہ کرو
بادلوں کے حاشیے روشن ہیں کوندے کی طرح
کچھ تو ہے جس نے بدل ڈالا ہے ظلمت کا مزاج
تمام رات اُمیدوں کے چاک سِلتے رہے
تمام شب ترے قدموں کی چاپ آتی رہی
مَیں اپنی تیرہ نصیبی کا بھید کیا کھولوں
کہ مجھ کو ساحل شب تو ملا، سحر نہ ملی
ہاتھ میں آتے ہی گُل کچھ اس طرح کملائے ہیں
ہم نے جتنے دھوکے کھائے ہیں، وہ سب یاد آئے ہیں