ہم پر وہ تازہ ستم کرتے رہے
اور ہم بس عرض غم کرتے رہے
جانے کب لوگوں نے دیکھا خوش مجھے
ظلم یہ جو دم بہ دم کرتے رہے
کب زباں سے ہم نے حال دل کہا
عرض یہ خود چشم نم کرتے رہے
ہم کو بھی ہے اس بات کا دکھ بہت
ذکر تیرا ہم جو کم کرتے رہے
اُن کے بارے بھی سوچ لو پرویز جی
جو کہ اپنوں پر ستم کرتے رہے