ہم کو بھی تیرے پیار میں ملوث ظلم چاہیے
نہ کہ تیرے پیار کے پھولوں کی شبنم چاہیے
غموں کی عادت ہمیں ‘خوشی کی تمّنا نہیں
کہیں سے ملے تو اِک تازہ غم چاہیے
پچھلی آزمائشیں کٹ چکیں مگر احساس ہے باقی
ہم کو پھر سے جلتی آگ میں سُلگتا ستم چاہیے
تُو دے نہ سکے ہم کو اور ہم لینا چاہیں
مرتی تمّنا کو غّدار چاہت کا وہ کرم چاہیے
اپنی آزمائش میں تجھ کو آزمانا چاہیں
تجھ سے وفاداری کا عذاب ہر دم چاہیے
ملی گی اِک مثال ہم سے‘شرط ہے اتنی
طوفان ہو زیادہ مگر شور کم چاہیے