ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
اس کوئے تشنگی میں بہت ہے کہ ایک جام
ہاتھ آ گیا ہے دولت بیدار کی طرح
وہ تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی ہے کوئی شے نگہ یار کی طرح
سیدھی ہے راہ شوق پہ یوں ہی کہیں کہیں
خم ہو گئی ہے گیسوئے دلدار کی طرح
بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
اب جا کے کچھ کھلا ہنر ناخن جنوں
زخم جگر ہوئے لب و رخسار کی طرح
مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح