ہوئے ہیں لوگ جو لاچار جھوٹ بولتے ہیں
میرے ہی آگے میرے یار جھوٹ بولتے ہیں
کسی کو ان پہ ذرا سا بھی اعتبار نہیں
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں
زمانے تیری جفاؤں کا کیا گلہ کہ یہاں
میرے تو اپنے ہی طرفدار بولتے ہیں
نہ جانے کیسا ہے پردیس کو کبھی کا گیا
ادھر سے آتے ہیں جو تار جھوٹ بولتے ہیں
ملے گاچان کو میری ہار سے نہ جانے کیا
یہ کس کے کہنے پہ اغیار جھوٹ بولتے ہیں
جو لوگ سچ کے لیے جان پہ کھیلتے ہیں
وہی لوگ آج سر دار جھوٹ بولتے ہیں