لہروں پے بنا کے صورتیں مٹاتی رہی ہوا
ساحلوں پے بنے گھروندوں کو ڈھاتی رہی ہوا
بچھڑا تھا جہاں سے قافلہ یہ وہی مقام ہے
منزل کے ہر نقش کو اڑاتی رہی ہوا
پھیلی ہے خوشبو ہر طرف تیرے جمال کی
ہر روپ سے تیرے بدن کو سجاتی رہی ہوا
کہنی تھی جس سے بات وہ ہم ناں کہہ سکے
لفظوں کے ہیر پھیر میں الجھاتی رہی ہوا
دروازے پے نظر رکھے ہم جاگتے رہے
اور سنا کے ان کو کہانیاں سلاتی رہی ہوا