ہوگی نا کسی کو بھی خبر شام کے بعد
چھوڑ آؤں گا پتھر کا نگر شام کے بعد
اک میرے ہی حصے میں تو بس شام نہیں
آۓ گی کبھی میری سحر شام کے بعد
دن بھر کی مسافت کی جو ہے ہوتی ہے تھکن
پنچھی بھی نکل آتے ہیں گھر شام کے بعد
ہوتا ہے یہی میرے سکوں کرنے کا وقت
یاد آیا نہ کر تُو مُجھے ہر شام کے بعد
شاید کے وہ سنگدل کا طرف دار ہی ہے
آتا نہیں جُگنُو جو نظر شام کے بعد
گھر اپنے کا رستہ اُسے گر یاد رہا
وہ لوٹ ہی آۓ گا مگر شام کے بعد
رکھتے نہیں آنگن میں جو دولت کا عذاب
سو جاتے ہیں بےخوف و خطر شام کے بعد
سمجھو کے اُسی دشت میں باقرؔ ہے مکین
ماتم کا سماں سا ہو جدھر شام کے بعد