اب سمندر کی طرح ندیا بھی پیاسا رکھے
ہو بھی سکتا ہے کہ وہ مجھ کو اکیلا رکھے
زندگی میں نے عزابوں کی طرح کاٹی ہے
تجھ کو یہ زیست محبت کا مسیحا رکھے
خود کو کہتا ہے محبت کا جو بازی گر
وہ جہاں بھی رکھے میرا ہی تماشا رکھے
میں بھی چاہوں گی محبت کا سمندر بن کر
میرے ہونٹوں پہ اگر پیار کا دریا رکھے
جس محبت نے مجھے مان دیا ہے جگ میں
اس محبت کو سدا شان سے اللہ رکھے
میں تو ہو جاؤں گی تحلیل اسی روح میں پر
وہ بھی بانہوں میں محبت سے زیادہ رکھے
چھٹ بھی سکتے ہیں جفاؤں کے یہ وحشی منظر
وہ دعاؤں کا اگر ہاتھ میں کاسہ رکھے
و ہ اگر خوش ہے مجھے دیکھ کے غم کا بادل
اس کی حسرت کو خدا ایسے کا ویسا رکھے
مجھ سے اب جان چھڑاتی ہو تو سن لو وشمہ
"جا خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے"