وحشت جنوں سے نکلا ہوں ابھی ابھی
بھولا ہوں غم عشق یوں ابھی ابھی
رہی عمر بھر دل پے طاری یہ بے کلی
ہوی معدوم محبت اس دل سے ابھی ابھی
کرب انتظار میں گزری ہے ساری زندگی
بعد مدت وہ نکلے میرے تخیل سے ابھی ابھی
آئی نہ تھی چمن میں اپنے یوں بہار کبھی
دے گئی ہے صبا ان کے آنے کی نوید ابھی ابھی
آیا نہ میرا نام ان کے نازک لبوں پر کبھی
ملا ہے ان کا پیغام محبت یوں ابھی ابھی
ہیں زمانے میں غم محبت کے سوا اور بھی
جانا ہے میں نے مقصد حیات کو ابھی ابھی
مقدور نہیں مجھکو اب اور غم اے زندگی
سنبھلا ہوں میں مجبت کے غم سے ابھی ابھی
بہک نہ جایئں پھر کہیں یہ قدم میرے اے زندگی
تو ا ٹھا لے مجھ کو یوں اے زندگی ابھی ابھی