ہے آدمی کو پیار بہت منزلوں کے ساتھ
ہر آرزو ہے لپٹی ہویٔ مشکلوں کے ساتھ
اب کے جو رُت پھری تو مِرے دِل نے یہ کہا
توُ بھی بدل نہ جاۓ کہیں موسموں کے ساتھ
عہدِ وفا اگرچہ سمندر سے کر لیا
موجوں کو پھر بھی پیار رہا ساحلوں کے ساتھ
دونوں کے درمیان انا کی خلیج تھی
گو ساتھ چل رہے تھے مگر فاصلوں کے ساتھ
اچھا کیا کہ تمُ نے بھی دامن چھڑا لیا
چلتا ہے کون دوُر تلک بادلوں کے ساتھ
اُس نے ہمارے دِل سے یہ کیسا کیا مذاق
ایسا بھی کویٔ کرتا ہے سادہ دِلوں کے ساتھ ؟
عذراؔ سفر میں ساتھ تھیں تنہاییٔاں مِری
اُلجھے ہوۓ تھے کیسے عجب مرحلوں کے ساتھ