ہے شکستہ اسے ساحل پہ اتارا بھی نہیں
ڈوبتی ناؤ کو تنکے کا سہارا بھی نہیں
اپنی منزل کی طرف قافلہ اب کیسے بڑھے ؟
ظلمت شب بھی ہے روشن کوئ تارا بھی نہیں
جب بھی ملتا ہے نئے درد ہی دیتا ہے مگر
اس ستم گر کے بنا اپنا گزارا بھی نہیں
یہ تو ممکن تھا پلٹ آتا مہرباں ہو کر
اس کو روکا بھی نہیں ، اور پکارا بھی نہیں
کچھ طبیعت بھی ترے غم میں ہے بکھری بکھری
اپنے بالوں کو کئ دن سے سنوارا بھی نہیں
ہے کٹھن راہ گزر ، دور بھی منزل ہے بہت
اور پھر بوجھ ترے غم کا اتارا بھی نہیں