ہ اکثر مجھ سے کہتی تھی تمہیں کس بات کا ڈر ہے
Poet: ساگر حیدر عباسی By: ساگر حیدر عباسی, Karachiوہ اکثر مجھ سے کہتی تھی تمہیں کس بات کا ڈر ہے
جدائی ہے محبت میں تو ملنا بھی مقدر ہے
محبت میں بچھڑنے کی یہ رسمیں توڑ دوں گی میں
وہ کہتی تھی تری خاطر زمانہ چھوڑ دوں گی میں
محبت میں ملن اپنا مقدر میں بناؤں گی
میں نے چاہا ہے تمہیں صرف تمہیں ہی میں چاہوں گی
وفا کی لاج میں میرا جو کچھ ہے سب لٹاؤں گی
وفا فطرت ہے عورت کی زمانے کو بتاوں گی
نہیں ممکن کبھی تیری محبت سے مکر جاؤں
وفا پر حرف آئے اس سے بہتر ہے کہ مر جاؤں
بہت قصے سنے تھے اس لئے چاہت سے ڈرتا تھا
جفا کا خوف تھا لیکن محبت اس سے کرتا تھا
رہا یہ کھیل کچھ دن تک یہ دلکش زندگانی تھی
محبت خوبصورت اور خوب اپنی جوانی تھی
محبت میں بچھڑنے کی روایت توڑنے والی
مری خاطر محبت میں زمانہ چھوڑنے والی
بہت دن تک وفا کے نام پر دھوکہ دیا اس نے
نہ دشمن بھی کرے مجھ سے سلوک ایسا کیا اس نے
دغا مجھ کو دیا اس نے مجھے جو یہ بتاتی تھی
وفا فطرت ہے عورت کی جو ہر لمحہ جتاتی تھی
بھرم سب توڑ کر اس نے محبت چھوڑ کر اس نے
نبھائی رسمِ دنیا مجھ سے منہ یہ موڑ کر اس نے
مٹا کر میری ہستی کو غموں سے چُور کر ڈالا
مجھے الفت کی دنیا سے بہت ہی دور کر ڈالا
بھروسہ اب محبت پر کبھی مجھ سے نہیں ہو گا
وفا فطرت ہے عورت کی مجھے کیسے یقیں ہوگا
جو ٹوٹا دل تو یہ جانا کے کیا ہے ذات عورت کی
مرا دل پوچھتا ہے کیا وفا ہے ذات عورت کی
یوں بھولی رسموں قسموں کو حقیقت کھول دی اس نے
ستمگر تھی محبت میں بھی نفرت گھول دی اس نے
تھی وہ مجبور فطرت سے محبت چھوڑ دی اس نے
وفا فطرت ہے عورت کی روایت توڑ دی اس نے






