پلکوں کا چلمن گرا کر
آنکھوں کے دریچوں کو بند کرکے
نیند کی حسین وادیوں میں
نیند کی پریوں کی تلاش میں
میری نظریں جب
ادھر ادھر بھٹکتی ہیں
تمہاری یادیں
میرے ذہن کے زندان سے نکل کر
کسی آسیبی سائے کی مانند
میرے سامنے آ دھمکتی ہیں
میرے کانوں میں
سرگوشیاں کرتی ہیں
میں گھبراہٹ میں
ساری دعائیں ورد کرنے لگتی ہوں
لیکن سب بےسود
یہ سرگوشیاں
میرے کانوں میں
ویرانے میں کسی مندر
کے گھنٹے کی طرح
زور زور سے شور مچاتی ہیں
میں نہ چاہتے ہوئے بھی
پلکوں کی اوٹ سے
انہیں دیکھنے کی گستاخی کر ہی لیتی ہوں
اور پھر
وہ مجھے اپنے آسیب میں جکڑ کر
میری انگلیاں تھامے
ہولے ہولے چلتے ہوئے
یادوں کی
ویران بستی میں لے جاتی ہیں
جہاں آرزوؤں کے جگنو
خوشیوں کی تتلیاں
خواہشوں کے پنچھی
اداسیوں کے کفن میں
مدفون ہیں
تمہارے وعدے
تمہاری قسمیں
ساتھ بتائے سارے لمحے
مجھے مسکرا مسکرا کر
ایسے دیکھے جاتے ہیں
جیسے کسی ننھے بچے کو
اسکا من چاہا کھلونا مل گیا ہو
وہ تمہارا عہد
عمر بھر ساتھ رہنے کا
صرف میرے بنے رہنے کا
میری نظروں کے سامنے
محو رقص ہوتا ہے
او ر پھر عالمِ بےبسی میں
میری آنکھوں سے
جذبات کے موتی
یوں بکھرنے لگتے ہیں
جیسے خزاں میں پتے
اپنی شاخوں سے ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
انہیں سمیٹتے بٹورتے
شب کی چادر
کب سرک جاتی ہے
مجھکو احساس ہی نہیں ہوتا