یادوں کے آدرش میں روز اشک جھڑتے ہیں
کبھی یاد کی ھچکی کبھی یہ نین پھڑکتے ہیں
وہ فضائیں دریچے سے چھوکر نکل گئیں
مگر شب کے دیئے اب بھی کیوں بھڑکتے ہیں
جام کے پیالے چھڑک جانے کے بعد یوں
ہم تیری آنکھوں سے پیء کر لڑکھتے ہیں
تجھے بھلانے کے لئے دل پر اختیار نہیں
نہیں تو دکھ میں رہنا کون چاہتے ہیں
سنتوشؔ تم شہ زوری سے ٹوٹ چکے ہو
سانسیں رکنے پر فقط احساس دھڑکتے ہیں