میری غربت نے اُڑایا ہے میرے فن کا مذاق
ان کے دولت نے ان کے عیب چھپا رکھے ہیں
ساغر صدیقی
تلخیاں وقت کی کہاں تک ساتھ ہیں میرے
کنارے ٹوٹ کر اکثر ساحلوں میں بدل جاتے ہیں
کُندن
دھواں بھی گھٹ کے رہ گیا خاک وجود میں
کچھ لوگ اپنی آگ میں چپ چاپ جل گئے
اس جہاں میں کسی کو حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہمیں تو نہ ملا