یادوں کے موسم میں خوف کے ٹھکانے ہیں
بن تیرے وحشت میں بیتے سب زمانے ہیں
کیسی یہ ہوا چلی ماضی کے ورق اڑے
ہر اک صحفے پہ لکھے قصے وہ پرانے ہیں
ڈھونڈتی ہے تنہائی گزرے لمحے فرصت کے
رات کی سیاہی میں لپٹے وہ خزانے ہیں
شام نے سمیٹے خواب اپنے زخمی آنچل میں
صبح کی خاموشی میں دھندلے سے فسانے ہیں
اے قضا ہمیں دے دو تھوڑی مہلت جینے کی
ایسے لوگ باقی ہیں جو ابھی منانے ہیں