یاد آتا ہی رہا وہ بچھڑ کے
بچھڑ کے بھی رہا سر چڑھ کے
رُتِ خزاں آئی محبت پہ
شجر خالی ہوا جڑھ جڑھ کے
محبت کیا کی تھی اُس نے
گیا زنجیروں میں جکڑ کے
دو قدم نہ اپنی جگہ سے ہلا
اُس نے تھاما نہ بڑھ کے
یہ تحفۂ گلاب تو دیکھو ذرا
کیا بن گیا ہے سُکڑ کے
یہ رونا کس لیے ہے انمول
خوش ہے وہ تم سے اُکھڑ کے
زمانہ خوش کیا اُس نے
بات بات پہ یوں بگڑ کے