نہ یاد رہا وعدہ اسے، نہ وہ پہلی ملاقات
نہ برسات میں اکٹھے بھیگنا، نہ چاہت کی وہ رات
بجلی جب چمکی تھی اور بادل زور سے گرجا تھا
اندھیری رات کا خوف اسکی آنکھوں میں آ سمٹا تھا
بھیگے موسم میں سانسیں اسکی مہک رہی تھیں
سرگوشیوں میں جیسے، مجھ سے کچھ کہ رہی تھیں
ہم پہ فدا تھا وہ، اب بے خبر کیسے بن بیٹھا
دامن چھڑا کے ہم سے، وہ معزز شہر بن بیٹھا
جوانی کا جب جوبن تھا، وہ لہر بھی اب اس کو یاد نہیں
جاوید اسے بھولی بسری کوئی یاد بھی اب تو یاد نہیں