عمر بھر آس نے نبھائی بہت
زندگی مر کے یاد آئی بہت
تشنگی تھی کہ مچلتی ہی رہی
یاد دل سے تیری بھلائی بہت
اک انا ہی تو پاس تھی اپنے
راہ میں تیری وہ لٹائی بہت
لذت زخم ہی نہیں بخشی
درد نے نیند بھی چرائی بہت
روح منزل! تمہارے قدموں میں
دولت آرزو گنوائی بہت
ہاتھ پاؤں بندھے تھے منصف کے
دل نے دی ٹوٹ کے دہائی بہت
چلک ہی آئی شوق کی وحشت
ہم نے پلکوں تلے چھپائی بہت
سب کی منزل وہی حسرت نکلی
ہر ایک راہ آزمائی بہت
روئی کرنیں گلے سے لگ کے میرے
صبح گل یوں بھی راس آئی بہت
بھرم نے لفظ کی پناہ ڈھونڈی
دیکھ لی تیری بے وفائی بہت