یاد نہ بھولے گی
Poet: Tariq Ibrar By: Tariq Ibrar, Jammuفخرتھے اہلِ دھنوں کے اورسب کی جان تھے
سچ تویہ ہے وہ عُلوم وفن کی اک پہچان تھے
ماہ اکتوبرمیں سن چونسٹھ میں جوپیداہوئے
۸۰۰۲ءمیں مئی 22 کوجوچل دیئے
نام سے کیاکام سے بھی منفردممتازتھے
یعنی وہ فکروعمل کااِک بڑاآغازتھے
ساتھ میرے یادکرتے ہیں اُنھیں اہلِ دھنوں
عِلم پھیلانے کاتھاسب سے بڑاجن کوجنوں
خدمتِ مخلوق کاجذبہ تھااُن کالاجواب
زندگی میں عِلم پھیلایااُنھوں نے بے حساب
ماسٹرممتازمیں سب خوبیاں تھیں بے مثال
چندہی لوگوں کوہوسکتاہے حاصل یہ کمال
رشتہ سمجھایاہمیں شاگرداوراُستادکا
فرق جاناہم نے بھی پابنداورآزادکا
جب علاقے میں کبھی پیش آیاکوئی مسئلہ
عقل ودانش سے وہیں پرمسئلہ وہ حل کیا
آخری دم تک یہاں وہ علم پھیلاتے رہے
حکمت ودانش کی باتیں ہم کوسمجھاتے رہے
عقل ودانش کے لیے حددرجہ وہ مقبول تھے
جان لوتم ہرطرح وہ آدمی معقول تھے
دِل میں تھاخوفِ خدااوروں سے وہ ڈرتے نہ تھے
دِل دُکھے جس سے کوئی ایساوہ کچھ کرتے نہ تھے
آخری لمحات تبلیغ وعبادت کودیئے
یعنی وہ دِن بھی اُنھوں نے بس ریاضت کودیئے
یعنی وہ دِن بھی اُنھوں نے بس ریاضت کودیئے
اُن کے سب اوصاف پراہلِ دھنوں کونازہے
دوستوجواُن کے جانے سے خلاپیداہوا
آﺅہم مل کریہ سوچیں اُس کاہوگاکیابھلا
کردے اُن کی مغفرت مانگوں دُعا۔ربّ جلیل
اوراُن کے اہلِ خانہ کوبھی دے صبروجمیل
جنت الفردوس میں اللہ دے اُن کومقام
رہتی دُنیاتک رہے لیتازمانہ اُن کانام
رہتی دُنیاتک نہ کم ہواُن کاہرگزاحترام
یادکرکرکے اُنھیں ہوتے رہیں دِل شادہم
آرزویہ ہے تمناہے یہی ابرار کی
عظمتِ ممتازسے جرات نہ ہواِنکارکی
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






