یاس و حسرت کا ہے جنگل میں جدھر جاؤں گا
جب بھی گزروں گا مری جاں میں تو ڈر جاؤں گا
کیسے مل پائے گا تجھ کو میری ہستی کا سراغ
خشک پتا ہوں، ہواؤں میں بکھر جاؤں گا
مجھ کو آئے گی میسر نہ کہیں جائے سکوں
تیرے کوچے سے جو نکلوں گا کدھر جاؤں گا
تیری فرقت کی گھڑی جبکہ گراں ہے دل پر
تجھ سے بچھڑوں گا کسی طور تو مر جاؤں گا
کیسے ابھریں گی مرے ضبط کی موجیں اختر
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا