یا خدا بن جاؤں میں پتھر کی مورت کِس طرح
دِل پہ سہتی ہی رہوں میں ان کی نفرت کِس طرح
جو یہ کہتا تھا میں اس کی روح کا سکھ چین ہوں
ہوگئی اُس کے لئے میں بے ضرورت کِس طرح ؟
دوریاں بڑھتی ہی جائیں گی اگر ہر دِن یونہی
دور کر پاؤں گی میں ان کی کدورت کِس طرح ؟
ایک دو پل کی محبت کی یہاں فرصت نہیں
لوگ اِک دوجے سے کر لیتے ہیں نفرت کِس طرح ؟
تم ہماری زندگی کا ایک ہی ا ر ما ن ہو
دِل سے جانے کی تمہیں دے دیں اِجازت کِس طرح ؟
غیر بن کر جب مرے اپنوں نے آ نکھیں پھیر لیں
کیا کہوں ٹوٹی پھر اس دِل پر قیامت کِس طرح
چھوڑئیے کیا چاہتیں بھی بانٹنے کی چیز ہیں ؟
کوئی سہہ سکتا ہے چاہت میں شراکت کِس طرح
لوگ جو ہوتے ہیں سارے ایک کشتی کے سوار
ایک دوجے کو وہ کرتے ہیں ملامت کِس طرح ؟
میری آنکھوں سے جھلکتا غم انہی کی دین ہے
بھول جاؤں میں بھلا ان کی عنائیت کس طرح ؟