وہی آنگن میں پھیلی زرد سی کرنوں کا جھرمٹ ہے
وہی ایک بوڑھا برگدہے، وہی ایک پینگ ہے اس پر
وہی لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ، وہی سادہ سی باتیں ہیں
وہی گاؤں کا مکھیا ہے، وہی حقوں کی گڑ گڑ ہے
وہی سرسوں کی سوندھی بو، وہی کھیتوں کی ہریالی
وہی تالاب پہ بیٹھی سَکھی بہنوں کی باتیں ہیں
وہی بابا کی سوہنی دھی، وہی لمبی سی چنری ہے
وہی اماں کی میٹھی ڈانٹ سے ڈرتے جواں کڑیل
وہی ساون کی رم جھم ہے، وہی کالی گھٹائیں ہیں
وہی کَمیوں کی بے چینی، وہی تاروں کی مستی ہے
وہی بجلی سے کوسوں دور، وہی پانی کی کمیابی
وہی لوگوں میں خوشیوں کی عجب بہتات جیسے ہے
وہی اپلوں پہ پکتی خوشنما گیہوں کی روٹی ہے
وہی مہمان خانے میں بڑے بوڑھوں کی بیٹھک ہے
وہی شاموں میں منڈیروں پہ پنچھی بیٹھ جاتے ہیں
وہی دادا کا بچوں کو گھمانے ساتھ لے جانا
کھلونے بھی دلا دینا، جلیبی بھی کھلا دینا
وہی ابا کا چھٹی پر کبھی جب گاؤں آ جانا
وہی دادی کی آنکھوں میں اچانک نور آ جانا
وہ سردی کی ٹھٹرتی شام میں چاۓ کی پیالی بھی
وہ ماں کی گود میں سر کو ٹکا کر آنکھ لگ جانا
نہیں بدلا میرا گاؤں، سبھی کچھ پہلے جیسا ہے
مگر لگتا ہے، بدلا ہے، یقیناً میں ہی بدلا ہوں
مجھے اب یاد آتا ہے جسے میں چھوڑ آیا ہوں
وہ ماں کی گود میں سونا، وہ پیڑوں سے میری باتیں
وہ سادہ لوح لوگوں کی وہ سادہ، صاف سی باتیں
ازاں ہوتے ہی گھر کو تیز قدموں لوٹ آنا بھی
بہت کچھ یاد آتا ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
سبھی کچھ پہلے جیسا ہے، مگر لگتا ہے بدلا ہے
یقیناً میں ہی بدلا ہوں، یقیناً میں ہی بدلا ہوں