یقیں سے وصل کیا، ہجر کے گماں سے اُٹھا
میں جا کے بیٹھ گیا پھر وہیں ، جہاں سے اُٹھا
اِک اور جست مرے ذوق ِ جستجو نے بھری
اِک اور پردہ مرے اُس کے درمیاں سے اُٹھا
مہ و نجوم بنے اور کہکشائیں بنیں
میں گرد جھاڑ کے جس وقت آسماں سے اُٹھا
اِک ایک کر کے اُٹھے سب کہ اِک محبت تھی
سو اب یہ جذبہ بھی لوگوں کے درمیاں سے اُٹھا
تری دعا کو میں بخشوں قبولیت کا شرف
منافقین کو اِس بزم ِ دوستاں سے اُٹھا
وہ ایک شعلہ جسے لوگ درد کہتے ہیں
کبھی یہاں سے اُٹھا اور کبھی وہاں سے اُٹھا
سُنے گا کون تری بات ، کون مانے گا
مرا حوالہ اگر تیری داستاں سے اُٹھا