یوں ٹوٹ کر تو خود کو بکھرنے نہ دیں گے ہم
بے موت اپنے آپ کو مرنے نہ دیں گے ہم
پھر سے کیا ہے عہد کہ اب دِل کے شہر میں
یادوں کے کارواں کو ٹھہرنے نہ دیں گے ہم
اے دِل پرایٔ آگ میں جلنا بہت ہوا
اب اور کا کیا تجھے بھرنے نہ دیں گے ہم
اب کھل چکے ہیں ہم پہ سبھی آگہی کے در
خود کو کِسی کے جبر سے ڈرنے نہ دیں گے ہم
پتھر کی ہو نہ جایںٔ یہ آنکھیں بھی ایک دِن
دریا اِن آ نسوؤں کا اُترنے نہ دیں گے ہم
سُن اے امیرِ شہر ترا دور اب گیا
جو آج تک کیا تجھے کرنے نہ دیں گے ہم
مدُت کے بعد آپ سے ملنا ہوا نصیب
اِس پل کو روک لیں گے گذرنے نہ دیں گے ہم
عذراؔ بدلنے ہوں گے ہمیں اِسکے خدو خال
چہرا غمِ جفا کا نِکھرنے نہ دیں گے ہم