یوں یی نکلا تھا گھر سے زرا دور جانے کو
کچھ کرنے تازہ اور کچھ یادیں بھولانے کو
ذارا دور چلا ہی تھا کہ پھر خیال آیا
مجھے جانا تھا اس بار اسے منانے کو
واپس پلٹا ہی تھا کہ دور سے آواز آئی
چلتے رہو یہی راستہ نکلتا ہے مے خانے کو
پتھر نہ پھینکا جائے تو لہریں نہیں اٹھتیں
خاموش سمندر کو خاموش ہی گزر جانے دو
دل ہی زندہ رکھتا ہے اور دل ہی مار دیتا ہے
خود ہی جلا ڈالا ہے اپنے آشیانے کو
کیوں ڈھونڈتے ہو پرانی راہوں میں اسے سعادت
جو لمحہ بیت گیا سو اسے بیت جانے دو