یہی تو روشنی کا ہے
گزرتی ہے نگاہیں کرکے خیرہ تیز رو ایسے
اندھیروں میں بسی آنکھیں بہت حیران ہوکر پوچھتی ہیں
”روشنی تھی کیا؟“
شعاعوں کا یہی تو ہے
یہ لہروں سے لپٹ کر تیرتی ہیں، رقص کرتی ہیں
اُفق سے جب بُلاوا آئے تو ٹھیرا نہیں کرتیں، یہ پَل میں لوٹ جاتی ہیں
یہی تو چاندنی کا ہے
سمندر کو منور کرتے کرتے شب کے جانے کون پَل میں
چاند کی جانب پلٹتی ہے، تو پھر واپس نہیں آتی
سو لوگو!
روشنی اور چاندنی آنگن میں یا گھر کے کنویں کے گدلے پانی میں
تو ان کی سب دمک آنکھوں میں بند کرلو
چمک آنکھوں میں بند کرلو
شعائیں لہروں سے دامن چھڑائیں، اس سے پہلے تم
سب ان کی خیرگی پلکوں تلے رکھ لو
کہ ان سے جو بھی مل جائے غنیمت ہے
بڑی عجلت میں اپنی تابناکی دان کردینا
بہت جلدی میں جانا ان کی فطرت ہے