اے دل
یہ آرزو تھی اس فصل گل میں مرجاؤں،
فضا میں نگہت گل کی طرح بکھر جاؤں۔
تمنا تھی کہ ایسی للکار بن جاؤں،
جو گونج اٹھے تمام شھر میں صبح نوید کی طرح۔
شہر واسیو آج زرا سن لو تم
بے آسرا رہو گے، مرجاؤ گے
موت توہے، جو موت سے نہیں آتی،
زندگی صرف مر مر کر جینے کا نام نہیں۔
زندگی جیو عقاب کی طرح،
جو نظرین جمائے اپنے شکار پر اونچی اڑان بھرتا ہے
سچ تو یہ ہے کہ کچھہ لوگ جیتے ہیں اپنے لیئے
اور بہت کم، لوگوں کا روگ لے کر جیتے ہیں۔
زمیں کا سوگ منانے میں کدھر جاؤں؟
یہاں تو جو بھی ہے فلک مقام اے دل
کورے کاغز پر لکھوں کیا؟ اے دل
نسیم تو نہ بدلا ہے، نہ بدلے گا
کل کیا ہونا ہے نہ تو سمجھے گا