یہ اضطراب یہ بے چینی ہے کیوں
دلوں میں بسی بے چینی ہے کیوں
گردش ایام حال سے بے حال ہے کیوں
صدائیں ہر طرف سے بلند ہے تو
غریب کا سینہ چاک ہے آج کیوں
کارواں زندگی میں ہلچل ہے تو آج کیوں
شادمانی کا سورج طلوع نہیں ہوا آج کیوں
دل درد رکھتے ہوئے بھی بے درد ہے
سوات بے بسی کی صدائیں گونچتی ہے اب تک کیوں
بے بسی کے بھرے ہوئے آج ہے کیوں