یہ تو سچ ہے کہ وہ کب کا مرا گھر چھوڑ گیا
ہاں مگر جاتے ہوۓ اپنا اثر چھوڑ گیا
آئنہ ہو یا ہو دیوار پہ لٹکی تصویر
گھر کی ہر چیز میں وہ اپنا ثمر چھوڑ گیا
میرے محبوب کو اتنی تھی محبت مجھ سے
اپنا غم میرے لیۓ شام و سحر چھوڑ گیا
روتے رہنا مرا بھاتا تھا اسے بھی شاید
یار جاتے ہوۓ آنکھیں مری تر چھوڑ گیا
وہ نہ لوٹا تو لگا یوں کہ مسافر تھا کوئی
جو ہمیشہ کلۓ راہگزر چوڑ گیا
میں تو ماں باپ کی ناکارہ سی اولاد جو تھا
باپ کیوں میرے لیۓ لعل و گوہر چھوڑ گیا
رہنا ہر دؤر میں ہے دینِ محمدؐ زندہ
نوکِ نیزہ پہ حُسینؑ اپنا جو سر چھوڑ گیا
مجھ کو روتے ہوۓ باقرؔ یہ کہیں گے کبھی لوگ
ایک خاکی اک مٹی کا نگر چھوڑ گیا