یہ جوہونٹوں پہ مسکان سجائےرکھتے ہیں
ہم تو اس طور غم کو دل میں چھپائے رکھتے ہیں
ہر ایک دکھ کو سمجھتے ہیں کہ آخری دکھ ہے
یوں گراں زیست کے اسباب بنائے رکھتے ہیں
بزمِ اغیار میں ہنس ہنس کے چھپاتے ہیں الم
ھم آنا دل میں یوں ھی اپنے بسائے رکھتے ہیں
ھر کسی کو اپنے زخم دکھائے کیونکر
لوگ ظالم ہیں نمک ان پر گرائے رکھتے ہیں
اہل دنیا سے محبت کا نتیجہ ھے یہی
جام نفرت کا پیئے پر الفت پلائے رکھتے ہیں
یہ بھی سچ ہے کہ فطرت نہیں بدلا کرتی
پھر بھی رستے پہ تیرے آنکھ لگائے رکھتے ہیں
زریں سچ بات زمانے کو نہیں بھایا کرتی
پگلی کچھ سچ بھی دل میں چھپائے رکھتے ہیں