یہ جو آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے

Poet: ندؔیم مراد By: NADEEM MURAD, Pietermaritzburg

یہ جو آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے
عاشقی میں کوئی کمی سی ہے

میری تنہائیوں کا ذکر ہی کیا
میری محفل بھی ماتمی سی ہے

شعلہ زن تھے کبھی، وہی جذبے
برف کچھ ان پہ اب جمی سی ہے

ایک دھوکہ ہے زندگانی بھی
آگ سی ہے کہ شبنمی سی ہے

کہتے ہیں چھپ چھپا کے کرنی ہے
میری نیکی بھی مجرمی سی ہے

اس میں دکھ سکھ ہیں، جینا مرنا ہے
زندگی جیسے موسمی سی ہے

اُسکا لہجہ طلسمِ ہوش رُبا
اس پہ پوشاک ریشمی سی ہے

ٹھہرو ٹھہرو ابھی نہ پوچھے کوئی
بات تھوڑی ابھی جمی سی ہے

سمجھے تھے عشق ہی خطائیں کرے
وہ پری رُخ بھی آدمی سی ہے

کیا ہوا ہے ندیم کیوں چپ ہو
چشم کیوں تر ہے کیا غمی سی ہے



 

Rate it:
Views: 1411
05 Jun, 2021