یہ جو دل ہم نے محبت میں جلا رکھا ہے
چشم صحرا کو صورت دریا بنا رکھا ہے
تیرے آنے کی امید میں کب کا ہم نے
در کھول کے آنکھوں پہ اٹھا رکھا ہے
صبر کرتے ہیں مگر صبر کا چارہ بھی نہیں
ہوش میں آکے بھی ہوش گنوا رکھا ہے
اپنے آپ سے کیے جاتا ہوں باتیں اکثر
تیری صورت نے یوں مجھ کو پاگل بنا رکھا ہے
جو اچانک تم مل جاؤ ہمیں رستے میں
نام اسی کا تو ہم نے باد صبا رکھا ہے
مسکرا اٹھو تو یہ منظر بیاں نہیں ہوتا
منظر حسن کہاں خدا نے چھپا رکھا ہے