یہ جو شاعری میں ، تم کمال رکھتے ہو
بھیگی پلکوں پہ درد کے اعمبار رکھتے ہو
یہ روشن خیالی جو تجھ سے ہے خفاخفا
لگتا ہے اک مدت سے لامکاں زوال رکھتے ہو
وقت تم پہ نہیں رہے گا یکساں علیجاہ کبھی
تم تو پھر اک شخص کا دل میں ارمان رکھتے ہو
تیرا عشق ناچے گا انگاروں پہ اک دن نَنگے پاؤں
تم مستی میں کیا خوب ملال رکھتے ہو
تم جو پیتے ہو جام میحانے میں نام اٰس کا لے لے کر
سُنا ہے ! خوش کھو کر بھی اُس کا خیال رکھتے ہو
ہے تیرا ٹوٹ کے رہ جانا میری موت کا سبب نفیس
تم سرِ فہرست اس شہر میں حُسن و جمال رکھتے ہو