یہ دل کسی کی یاد میں ویران ہے مرا
بچھڑا ہے وہ تو زیست میں کچھ بھی نہیں رہا
شام و سحر کی آج کہاں ہے خبر مجھے
مایوسیوں کی راکھ میں دل ہے بجھا بجھا
پھر ہیں وہی اداس سی پرچھائیاں قریب
پھر رات کے سناٹے میں گونجی وہی صدا
رنگیں رتوں میں آنکھوں کا ملنا وہ پہلی بار
اک واقعہ تھا حادثہ بنتا چلا گیا
الفت کے جرم میں وہ رہا ہے مرا شریک
اور پا رہا ہوں اس کے بھی حصے کی میں سزا
زاہد تجھے تو پیار کی محفل بھی نہ ملی
دنیا میں دنیا والوں کو کیا کچھ نہیں ملا