غائب بھی ہے، حاضر بھی ہے
چُبھاتا درد کا، خنجر بھی ہے
پیاس بھی ہے، آس بھی ہے
خوابوں کا اُلجھا احساس بھی ہے
خاموش بھی ہے، کہتا بھی ہے
بن کر دریا آنکھ سے، بہتا بھی ہے
پاتا بھی ہے، کھوتا بھی ہے
لپٹ لپٹ کر، روتا بھی ہے
تھکاتا بھی ہے، چَلاتا بھی ہے
رُلا رُلا کر، ہنساتا بھی ہے
گرتا بھی ہے، سنبھلتا بھی ہے
خواب نئے پِھر، بُنتا بھی ہے