یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں
یہ زندگی نصیب ہے لوگوں کو کم یہاں
کوشش کے باوجود بُھلائے نہ جائیں گے
ہم پر جو دوستوں نے کئے ہیں کرم یہاں
کہنے کو ہمسفر ہیں بہت اِس دیار میں
چلتا نہیں ہے ساتھ کوئی دو قدم یہاں
دیوارِ یار ہو، کہ شبستانِ شہرِ یار
دو پل کو بھی کسی کے نہ سائے میں تھم یہاں
نظمیں اُداس اُداس، فسانے بُجھے بُجھے
مدّت سے اشکبار ہیں لوح و قلم یہاں
اے ہم نفس! یہی تو ہمارا قصور ہے
کرتے ہیں دھڑکنوں کے فسانے رقم یہاں