یہ سوچتا ہوں میں تنہائیوں کی محفل میں
دیا ہے آج تلک شاعری نے کیا مجھ کو
لہو کی بوندوں سے لکھتا ہوں گیت اور غزلیں
مگر یہ خوں مرے کچھ بھی نہ کام آیا ہے
مرے تو شعروں کی اتنی بھی نہ لگی قیمت
کہ جس سے پیٹ کے دوزخ کو میں بجھا لیتا
سماج سے مجھے عزت بھی نہ ملی ان سے
یہ گیت اور یہ غزلیں مرے لیے کیا ہیں
میں ساری باتوں سے سمجھوتہ کر بھی سکتا تھا
جو میرے شعروں سے آ جاتا انقلاب کوئی
مرے سماج کی رسمیں اگر بدل جاتیں
مرے وطن کا جو چہرہ کبھی سنور جاتا
یہ مشغلہ بھی تو رسوائی کا سبب ہے یہاں
منافقت ہے ، جہالت ہے جس طرف دیکھو
ہر ایک بات کو پیسے سے تولا جاتا ہے
تو ایسے میں بھلا شعروں کی قدر کون کرے
بتاؤں کس کو کہ شاعر ہوں شعر کہتا ہوں
مزاق اپنا بنانا نہیں گوارا مجھے
بس ایک آگ جو سینے میں جلتی رہتی ہے
اسے بجھانے کی خاطر میں شعر کہتا ہوں
یہ شاعری تو ہے دل کے سکون کی خاطر
“ وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے “
ملا تھا زیست میں کیا شاعری سے غالب کو
ملے گا مجھ کو بھی کیا اس سے جانتا ہوں میں
یہ سوچتا ہوں میں تنہائیوں کی محفل میں
دیا ہے آج تلک شاعری نے کیا مجھ کو
لہو کی بوندوں سے لکھتا ہوں گیت اور غزلیں
مگر یہ خوں مرے کچھ بھی نہ کام آیا ہے