یہ سچ ہے کہ ہم لوگ بہت آسانی میں رہے
Poet: شعیب ارشد By: Muhammad Shoaib Arshad, Bridgeportیہ سچ ہے کہ ہم لوگ بہت آسانی میں رہے
پر نام وہی کر گئے جو بخت گرانی میں رہے
اس کی یاد کس دیر تک ساتھ رہی کیا کہیں
غم تھا تو گھر ہو کے بھی لامکانی میں رہے
لوگ قصے کر گزر کے رقم کر بھی گئے
ہم ہیں کہ محو شوقِ قصہ خوانی میں رہے
ہم اپنی جون میں کبھی بھی نہ ہوئے تسلیم
ہم سدا کسی مکمل مثال کے ثانی میں رہے
اپنی زبان ہمیں عزیز اور نہ اپنی زمیں
غلامی سے ہم نکلے تو زندانی میں رہے
وہ میرا سوچتا تو ہے مگر کسی اور کے بعد
یعنی کہ ہم اک موہوم سے یعنی میں رہے
تھک ہار کے شل ہو بھی گیا بوڑھا جسم
ارماں کہ جواں تھے اور جوانی میں رہے
جن کو صحرا دیا وہ تشنہ لبی کو روتے رہے
جن کو دریا ملا وہ شاکی ہیں کہ پانی میں رہے
غمِ عشق اور غمِ جہاں کا حسین سمجھوتہ
دونوں میرے دل میں اپنی روانی میں رہے
ایک بار اس بے وفا سے دل لگا کے شعیبؔ
ہم تو پھر ساری عمر ہی پشیمانی میں رہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






