یہ مروّت کیا کم ہے ملتے ہوئے
جھوٹے آنسُو خوشی سے روئے ہیں
کتنے برباد خواب آنکھوں میں
چین کی مر کے نیند سوئے ہیں
مجھ سے تاریک کی جفاؤں سے
کتنے چہروں نے نُور کھوئے ہیں
اے مرا ناخدا پرستش سے
سجدۂ سہو مجھ پہ روئے ہیں
اے دلا! غسلِ بدگمانی سے
ایک عالم کے بحر دھوئے ہیں
اے مری فصلِ پُر بہار اب تک
تیری کھیتی میں خار بوئے ہیں
شکوۂ موجِ خُود سری کس کو
اپنے بیڑے تُو خود ڈبوئے ہیں
تیری صورت کو رنگ دے دے کر
انگلیاں خُون میں بھگوئے ہیں
لب بلا کے ہیں تشنہ کام جنیدؔ
اندروں تک بھنور سموئے ہیں