یہ پیرہن جو میری روح کا اتر نہ سکا
تو نخ بخ کہیں پیوست ریشہ دل تھا
مجھے مال سفر کا ملال کیوں کر ہو
کہ جب سفر ہی میرا قافلوں کا دھوکہ تھا
میں جب فراق کی راتوں میں اس کے ساتھ رہی
وہ پھر وصال کے لمحوں میں کیوں اکیلا تھا
وہ واسطے کی طرح درمیان بھی کیوں آئے
خدا کے سامنے میں کیوں نہ ہوں تنہا
سراب ہوں میں تیری پیاس کیا بجھاؤں گی
اس اشتیاق سے تشنہ زباں قریب نہ لا
سراب ہوں کہ بدن کی یہی شہادت ہے
ہر ایک عضو میں بہتا ہے ریت کا دریا
جو میرے لب پہ ہے شاید وہی صداقت ہے
جو میرے دل میں ہے اس حرف رایئگاں پہ نہ جا
جسے میں توڑ چکی ہوں وہ روشنی کا طلسم
شعاع نور ازل کے سوا کچھ اور نہ تھا